ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ کے تقریباً تمام شہروں میں احتجاج اور گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ لیکن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں گزشتہ 24 گھنٹے کے مظاہروں نے سب سے زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے جہاں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پولیس نے مظاہرین پر حملہ کردیا تھا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سینکڑوں مظاہرین نے دھرنا ختم کرنے کے حکم کو مسترد کرتے ہوئے انسانی زنجیر بنائی اور پولیس نے انہیں دبانے کے لیے صوتی بموں کا بھی استعمال کیا۔
کیلیفورنیا کے پولیس کے مطابق ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے کم از کم 200 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
امریکی طلبہ اور نوجوانوں کے پرامن اور بڑھتے ہوئے اجتماعات اور مظاہروں دبانے کے لیے تشدد اور پولیس فورس کا استعمال اور یونیورسٹی کے احاطے میں پولیس کا داخلہ آزادی اظہار رائے کے امریکی دعوؤں کے منافی اور تعلیمی مراکز کے امن کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں جاری طلباء کی تحریک پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اگرچہ امریکہ میں احتجاج کا حق ہے لیکن نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کی کوئي گنجائش نہیں۔ تاہم انہوں نے اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا کہ طلباء غزہ میں صیہونی حکومت کے نفرت انگيز اور تشدد آمیز اقدامات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
بائيڈن نے جنگ غزہ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر خوف و ہراس پھیلانے کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ امریکہ کوئی قانون شکن ملک نہیں ہے۔
آپ کا تبصرہ